جب بیت المقدس آزاد ہوا – صلاح الدین ایوبی کی شجاعت کی کہانی
بارہویں صدی کا زمانہ تھا، بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں تھا۔ وہی سرزمین جہاں سے حضور ﷺ کا سفرِ معراج شروع ہوا تھا، مسلمانوں کے لیے قید بن چکی تھی۔ امت بکھری ہوئی تھی، ہر طرف کمزوری اور نااتفاقی چھائی ہوئی تھی۔ ایسے وقت میں ایک نوجوان سپاہی تاریخ کے افق پر ابھرتا ہے۔ وہ کرد خاندان کا بیٹا تھا جسے دنیا بعد میں صلاح الدین ایوبی کے نام سے پہچاننے لگی۔
صلاح الدین کو بچپن ہی سے اللہ کے دین سے محبت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک مسلمان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے، دشمن کے سامنے سر اٹھا نہیں سکیں گے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کو ایک مقصد کے لیے وقف کر دیا: بیت المقدس کی آزادی۔ وہ راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑاتے اور دن میں اپنی فوج کو جہاد کے لیے تیار کرتے۔
آخر وہ دن آیا جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ 1187 عیسوی میں میدانِ حطین میں صلیبی لشکر اور صلاح الدین کی فوج آمنے سامنے کھڑی تھی۔ تپتی دھوپ، ریگستان کی پیاس، صلیبی لشکر تھک چکا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی آگ جل رہی تھی۔ صلاح الدین نے اپنی فوج کو للکارا کہ یہ وہ دن ہے جس میں یا تو اللہ ہمیں عزت دے گا یا آزمائے گا۔ جنگ شروع ہوئی اور چند ہی گھنٹوں میں صلیبی فوج ٹوٹ گئی۔ ہزاروں قیدی بنا لیے گئے اور بیت المقدس کا راستہ کھل گیا۔
جب صلاح الدین کی فوج بیت المقدس کے دروازے پر پہنچی تو شہر کے لوگ خوف سے کانپ رہے تھے۔ انہیں یاد تھا کہ جب صلیبیوں نے یہ شہر فتح کیا تھا تو لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ مگر جب دروازے کھلے تو دنیا نے ایک انوکھا منظر دیکھا۔ صلاح الدین ایوبی فاتح تھے مگر ان کے دل میں رحم کی لہر تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس مقدس شہر میں کوئی خونریزی نہیں ہوگی۔ جو جانا چاہے امن کے ساتھ جا سکتا ہے اور جو رہنا چاہے، امان کے ساتھ رہ سکتا ہے۔
یہ فیصلہ صرف ایک سیاسی حکمتِ عملی نہیں تھا بلکہ اسلام کی اصل تصویر تھی۔ صلاح الدین نے زخمی دشمنوں کو بھی علاج فراہم کیا، عورتوں اور بچوں کو حفاظت دی، اور بیت المقدس کو ظلم کے بجائے عدل اور رحمت سے آزاد کیا۔
یہ واقعہ صرف ایک فتح کی داستان نہیں تھی، بلکہ امت مسلمہ کے لیے ایک سبق تھا کہ ایمان اور اتحاد کے ساتھ کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ حقیقی فاتح وہ ہوتا ہے جو دشمن کو گرا دینے کے بعد بھی معاف کر دے۔ بیت المقدس کی یہ واپسی ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، اور صلاح الدین ایوبی کا نام ہمیشہ رحمت، عدل اور جہاد کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

Comments
Post a Comment